Wednesday, January 12, 2011

WAJA HAIRBYAR MARRI KAY NAAM EIK APPEAL

by Regi Baloch on Saturday, January 8, 2011 at 5:54am
 لکھنے کا مقصد بحث و مباحثہ کا ہوتا ہے اختلاف رکھا جاسکتا ہے سوالات اٹھاءے جا سکتے ہیں ہمارا کوءی دعوہ نہیں ہے بلکہ ہم تو  فقط  غلطیوں کی نشاندہی کرنا چاہتے  ہیں اور غلطیوں  کی  بدولت دشمن فاءدہ  اٹھا رہا ہے اور  جیسے کہا جاتا  ہے کہ  پہلی غلطی آخری غلطی ہے ۔

انقلابی ہونے اور  انقلابی کہلوانے میں بہت فرق ہے  یعنی انقلابی ہونا ایک عمل کی نشاندہی کرتا ہے لیکن صرف انقلابی کہلوانا ایک دعوہ  ہے ۔ جیسے خیربخش کہتے ہیں کہ توکل والے ساتھی بہت ہیں لیکن شراءط  والے ساتھیوں کی ضرورت ہے اور انقلابی وہی ہے جو شراءط کے تحت جدوجہد کرے ۔ اپنی غلطیوں سے سیکھنا انقلابیوں کا شیوہ رہا  ہے ، وہ اپنی غلطیوں سے سیکھتے  ہیں نہ کہ اپنی غلطیوں کا دفاع  کرتے  ہیں غلطیوں کا دفاع  کرنا ایک مسخ  شدہ ذہن کی علامت  ہے ۔ مشہور فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید جو عملی طور پر بھی تحریک کا حصہ  رہے  ہیں کا کہنا ہے کہ تحریک کی بالغ  العتقادی کا اندازہ اس بات  سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ خود تنقیدی کی عمل سے گذرتی ہے ۔ ہمارے سماج میں تنقید کو زہر قاتل سمجھا جاتا ہے اور جب  نوجوان  تحریک پر  تنقید کرتے  ہیں تو انہیں حوصلہ افزاءی کی بجاءے غداری کا لقب ہی ملتا ہے ۔
 یقیناً  اس بات سے کوءی ذی فہم انکار  نہیں کرسکتا کہ تنقید کا عمل ایک اچھا عمل ہے یعنی پھوڑے کو کینسر نہیں بلکہ اس کا علاج  چاہتا ہے تنقید کرنے والا مختصراً شاید یوں بیان کیا جاسکے ۔ اسی لیے اس مرض کی دوا کو یعنی تنقید کے عمل کو خوش آمدید کہنا چاہیے ۔ مد مقابل کے موقف کو سننا اور اپنے موقف کو سامنے رکھنا ایک ساءنسی طریقہ کار ہے ، ہمارے یہاں بدقسمتی شاید یہ ہے کہ جیسے بیان کیا جا چکا ہے کہ تنقید کو زہر قاتل سمجھا جاتا ہے ، سوالات نہیں اٹھاءے جاتے ، تضادات کو چھپانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
 سوال اٹھایا جاسکتا ہے کہ میں انقلابی ہوں لیکن کیا میں ان معیاروں پر  پورا اترتا ہوں جن کا تقاضہ انقلابی جدوجہد مجھ سے  کرتا ہے؟جواب یقیناً نفی میں ہوگا،ہمارے یہاں تنقید اکثر اس لیے نہیں کی جاتی کہ فلانہ مخلص ہے لیکن صرف مخلصی سے تحریکیں کامیاب نہیں ہوتی بلکہ ساءنسی بنیادوں پر جدوجہد  بھی لازمی ہے جو تقاضوں  کو  پورا کرے ۔ زبان پر لفظ انقلاب اور خود کو انقلابی سمجھنا ، انقلابی جدوجہد کی باتیں ہمارے  یہاں انقلابی کی تشریح  یہی ہے ، اور جب بات عمل کی آتی ہے تو ان حضرات کے نقصان دہ یا غلط عمل کی نفی کرنا انقلابی جدوجہد کی نفی کرنا ہے ۔

ٹھیک حیربیار صاحب  آپ کی توجہ کچھ  ایسے نقصان دہ چیزوں  کی طرف کروانا چاہوں گا جس سے  ہمیں  نقصان اور دشمن کو فاءدہ  دیا گیا ہے اور انہی نقصان دہ عمل کو دورانے کے سبب دشمن مسلسل فاءدہ  اٹھاتا جارہا  ہے ۔ اگر میں  بولو نگا  تو انقلابی دوستوں کی جانب سے شاید مجھے غدار  کا لقب ملے گا لیکن چو نکہ مقصد ایک  بحث و مباحثے کا ہے اسی لیے  ہم  نقصان دہ عمل کی نشاندہی لازمی سمجھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ اس بارے میں مثبت اقدامات کریں گے۔

((... واجہ گیری ...))

 عام طور پر بلوچ قوم میں ایسے عناصر بہت کم ہیں جو بلوچ کا مفاد نہیں چاہتے ہوں گے کیو نکہ بلوچ کے مفاد میں ان کے مفاد کو
قومی آزادی کی جہد کو  ذاتی انا کا مسلہ بنانا ایک افسوسناک امر ہے ، جیسے کہ عرض ہے کہ اگر میں جہد میں شامل ہو تو شراءط کے تحت اب میرا ذات میرے لیے میری تحریک میرے قوم سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیو نکہ شراءط  کے تحت کام کرنے کی بنیاد  ہی اس بات پر  ہے کہ میں اپنے ذاتی انا کو اپنے قوم  پر قربان کرنے کو  ترجیح دیتا ہو ، لیکن جیسے ہم نے عرض کیا کہ کو شش یہ ہو تی ہے کہ قو می آزادی کو ذاتی جہد سمجھ کر نوجوان جو قو می مفاد  کے لیے جو  بھی کرنا چاہے وہ  اپنے نءے انقلا بی خیالات کے  تحت نہیں بلکہ انقلا بی دوستوں کے تحت کریں ۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انہیں وہ عمل کرنا پڑتا ہے جس کا تقاضہ وقت اور حالات یا انقلاب نہیں بلکہ انقلا بی دوستوں کے خواہشات کرتے ہیں اور  یہ بات مسلمہ طور پر ثابت ہے کہ انقلاب کسی کی خواہشات سے نہیں بلکہ وقت حالات اور تقاضوں اور ساءنسی بنیادوں پر جہد کے ذریعے برپا ہوتے ہیں۔ بات صاف ہے کہ جو ان حضرات کی بات نہیں مانتا وہ غدار  ہے یا سازشی ہے ۔ ایک طرح سے ہمارے انقلابی دوستوں نے حراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ۔ کیوں کے وہ جذبات کا کھیل اچھے طریقے سے کھیل سکتے ہیں اور بہت میٹھے انداز میں جھوٹ بولتے ہیں اسی لیے  نوجوان ان کے  پیچھے  ہو لیتے ہیں ہماری بدبختی یہ ہے کہ ہم سچ کی کڑواہٹ کو جھوٹ کی طرح میٹھا نہیں بنا سکتے ۔

ایک طرف غلامی جس کے اثرات ہم دیکھ سکتے ہیں تو دوسری جانب واجہ گیری کے جراثیم کو توانا کرتے ہیں کیونکہ ہمارے یہاں آءیڈیو لوجیکل موٹیویشن شخصیات سے منسلک ہے ۔ اب کوءی کسی لیڈر کو برا بھلا کہتے ہوءے پایا جاتا ہے تو پوچھا جاتا ہے کہ آپ کس ثبوت کی بنیاد پر فلاں شخص کو برا بھلا کہہ رہے ہیں تو کہتا ہے کہ فلاں واجہ نے یہ بات کہی ہے اور جو واجہ کہے وہ غلط نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے اگر ہم غور کریں تو ہماری سوچ قومی نہیں بلکہ شخصیت اور پارٹی تک محدود ہے جس سے ہمارا تعلق ہے ۔ بجاءے اس کہ کہ ہم سوال کریں اور احتساب کرنا سیکھیں لیکن انقلابی تربیت کی کمی کی بدولت ہماری سوچ واجہ کے سامنے یا پارٹی کے سامنے ہتھیار ڈال دیتی ہے ۔  یہ ہمارے انقلابی تربیت کے دعوے کا اصل چہرہ  ہے کہ ہم ایک انقلابی نظریے کو فالو  کرنے کی بجاءے اندھی تقلید کا شکار ہیں ۔  ملاحظہ کیجیے کہ آپ کے دو ورنا اس بات پر جگھڑ ر ہے تھے کہ وہ جو شہید ہوا اس کا تعلق میری پارٹی سے تھا اور ہماری پارٹی نے زیادہ قربانی دی ہے اور اگر تمہاری پارٹی نے  کوءی قربانی دی ہے تو تم گنواءو ۔ اب پوچھا جاءے کہ کیا وہ جو شہید ہوا وہ قومی مفاد کے لیے شہید ہوا یا پھر اس قسم کے فضول جھگڑوں کی خاطر؟
 وہ جو اغوا ہوءے ہیں یا جو شہید کیے گءے ہیں وہ بحیثیت بلوچ دشمن کو کٹکتے تھے دشمن کے لیے بلوچ ایک مجرم ہے چاہے وہ جس پارٹی سے ہی کیوں نہ تعلق رکھے ۔

 کہا جاتا ہے کہ ایک آدمی نوکری کر رہا تھا تو اس کے افسر کے دو اصول تھے ۔
 اصول نمبر 1۔ افسر صاحب ہمیشہ صحیح ہیں ۔
اصول نمبر 2۔ آپ جب بھی افسر صاحب کو غلطی کرتا پاءیں تو اصول نمبر ایک پر عمل کریں۔
 فکری تربیت کی بجاءے انقلابی دوست انہی دو اصولوں کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں ، کیوں کہ خود کو بالکل صحیح گردانا جاتا ہے اور اگر کبھی غلطی سے ایسا کارکن یا ورنا سامنے آءے جو واجہ سے سوال کرے تو مطمءن کن جواب دینے کی بجاءے یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کیا جاتا ہے کہ آپ یہ چیزیں نہیں سمجھتے ،لیکن واجہ وہ چیزیں سمجھانے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اور اگر پھر بھی سوالات کا سلسلہ نہ رکے تو اس پر جاہل ،سازشی اور حتی کے تنگ آکر غدار تک بول دیتے ہیں ۔ کیونکہ صرف دعوہ انقلابی ہے اس لیے علم اور سوال سے واقفیت نہیں بلکہ اسے خطرہ سمجھا جاتا ہے اور اندھی تقلید ،یس سر نو سر کو طاقت سمجھا جاتا ہے۔ 
ایک دوست کا تذکرہ کرنا چاہوں گا جو کہ طلبا تنظیم میں سینٹرل کمیٹی کا ممبر بنا جب اس سے پوچھا گیا کہ سنگت اب آپ اس کارواں کو  کیسے منزل مقصود تک پہنچا سکتے ہو  تو دوست نے مذاقتاً جواب دیا کہ ابھی جنرل سیکٹری بنے ہیں کام کریں یا نہ کریں بلوچ تاریخ میں ہمارا نام بحیثیت سیکٹری جنرل آءے گا ۔ ویسے نفسیات کا قانون ہے کہ ہم جو بات مذاقتاً کہتے ہیں وہ ہمارے لاشعور میں موجود ہوتا ہے اور ویسے بھی ہمارے یہاں تا حیات چیرمین بننے کا رواج چل پڑا ہے ۔ چیرمین کے عہدے سے ہٹ بھی جاءو تو لوگ آپ کو چیرمین کے نام سے ہی یاد کریں گے مطلب عہدے کو اہمیت ہے سادہ الفاظ میں اگر بیان کیا جاءے ۔ اسی واجہ گیری سے متاثر لوگ علمی بحث و مباحثہ سے دور بھاگتے نظر آتے ہیں اور اگر کبھی بحث و مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں بھی تو بہت بہتر انداز میں جھوٹ بولتے ہیں حوالہ جات سے منطق سے عاری باتیں کی جاتی ہیں ۔ اگر آپ ان سے منطقی انداز میں بحث کرنا چاہے تو وہ مذاق اڑاتے ہیں اور آپ کو غلط اور خود کو صحیح  ثابت کرنے کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں دراصل یہی ترم خان بلوچ نوجوان کی گمراہی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ ذاتی خواہشات ، پسند و  ناپسند یعنی ذاتی انا قومی بقا پر حاوی رہتی ہے جوکہ قومی تحریک کے لیے جان لیوا ہے۔ مختلف پلیٹ فارمز پر ہمیں ایسے لوگ ملتے ہیں جو خود کو پرفیکٹ سمجھتے ہوءے جھوٹ کا سہارا لے کر نوجوانوں کے حوصلوں کو پست کرتے ہیں حیربیار صاحب ہمیں یقین ہیں کہ یہ آپ انہیں بولے گے اور آپ کی بات کو مفید مشورہ سمجھ کر تسلیم کرلیں گے۔

((... پلیٹ فارم کا غلط استعمال ...))

ایک قوم جو اپنے قومی آزادی کے لیے جنگ لڑتی ہے تو وہ اپنے دسترس کے تحت ہر پلیٹ فارم کو استعمال میں لاتی ہے ۔ چاہے محدود سطح  پر ہی کیوں نہ ہو ۔ اور جس طرح  نواب خیر بخش مری بھی کہتے ہیں کہ ہر وہ ذریعہ جو  بلوچ کو  آزادی دلاءے  ہمیں استعمال کرنا چاہیے ۔ ذراءع کم ہیں لیکن کچھ ذراءع ہیں لیکن اگر ان کا استعمال اگر دانشمندی سے نہیں کیا جاءے تو ہماری بدقسمتی کے علاوہ اور کیا ہے؟ اخلاقتاً تقاضا تو یہ ہے کہ تنقید کرتے وقت ذاتیات پر نہ اترا جاءے ، سوچا بھی بہت اور کوشش بھی کی کہ نام لینے کی بجاءے اشارتاً وضاحت کیا جاءے لیکن مجبوراً اور افسوس ہے کہ اشارتاً وضاحت کافی نہ ہو بلکہ اس کے لیے نام لینا ضروری ہے۔ ہمارا اشارہ یہاں احمر مستحکن اور حفیظ حسن آبادی کی جانب ہے۔

ستر کی دہاءی کہ بلوچ انسرجنسی میں شیر محمد مری کا اہم کردار ہے ، ذاتی یا خاندانی یا پھر گروہی اختلافات اپنی جگہ لیکن شیر محمد کا کردار نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن حفیظ حسن آبادی بلا کسی ثبوت کہ شیرو مری کے خلاف لکھتے نظر آتے ہیں اور در حقیقت دیگر لیڈروں کے بارے میں بھی وہ لکھتے ہیں تو ان کے پاس کوءی حوالہ نہیں ہوتا ۔ بقول شہید انقلاب میر بالاچ مری کہ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ اپنے محور کو صرف تنقید تک محدود رکھا جاتا ہے اور غلام قوم اور غلامانہ ذہنیت سے بالاتر ہوکر یعنی ایک شکست خوردہ ذہنیت سے بالاتر ہوکر ہمیں ایک آزاد ذہنیت کے تحت سیاسی اور دانشورانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے ۔ بدقسمتی سے جب بھی کوءی سیاسی شخصیت یا دانشور بلوچ مسلے کو چھیڑتا ہے تو اسکی تنقید کے محور میں علاقاءی مخالفین ہی آتے ہیں ۔ اور بدقسمتی سے ہم اس سے آگے نہیں جاپاتے لازم ہے کہ ہم اپنے قومی مفادات ، قومی دشمن ، بین الاقوامی حالات کو مدنظر رکھتے ہوءے فیصلہ کرنے کی ضرورت  ہے ۔ ہمیں دشمن کو تنقید ہدف اور اپنے ہم خیال ہم وطنوں کو مخاطب کرتے ہوءے متحد کرتے ہوءے منزل کی جانب بڑھنے کا راستہ دکھاءیں۔

سوچھنے کی بات تو یہ ہے کہ ان حضرات کے مضامین سے پڑھنے والوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟
ایسے ہی لکھاری افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے کہ آپ کو دوسرے لیڈروں کے ساتھ قریب لانے کے قوم کو متحد کرنے کی بجاءے آپ کو دوسرے لیڈروں سے مزید دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔  احمر مستحکن کے مضامین جب نظر سے گذری تو لگا کہ جیسے طالبان کا ترجمان بول رہا ہے ۔ آپ کی توجہ چند مضامین کی جانب دلانا چاہتا ہوں جن میں اکثر اپنی بات کے ضمن میں حفیظ حسن آبادی سے اقتباس کرتے ہیں جو کہ ان د نوں ناروے میں پناہ لیے ہوءے ہیں ۔  
احمر مستحکن ایک آرٹیکل میں بلوچ وکیل اور سیاسی شخصیت کچکول علی ایڈوکیٹ سے ان کی سیاسی عمل پر سوال اٹھانے کی بجاءے ان کی ذاتی زندگی پر نہ صرف حملہ کرتے ہیں بلکہ ان کے زوجہ کو بھی نقیب کہتے ہوءے نظر آتے ہیں ایک اور جگہ انہیں دوبی کا کتا کہتے ہوءے نظر آتے ہیں ۔ اور کینڈا کے عبدالواحد کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوءے ان کے بھاءی کو شامل کرکے انہیں ڈاکٹر نور سیاہ کہتے ہیں ، سیاہ کا لفظ اس لیے وہ استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کا رنگت سیاہ ہے ۔ ٹھیک اسی طرح وہ ملک سراج اکبر جو کہ بلوچ قوم کے لیے بہت کچھ لکھ چکے ہیں انکو پنجابی بول دیتے ہیں ۔ اب یہ کہاں کی دانشوری ہے ، کیا یہ راستہ قوم کو متحد کرنے کا ہے کہ ایک جانب تہذیب سے عاری (معاضرت کے ساتھ)یعنی بازاری لہجہ استعمال کیا جاتا ہے اور دوسری جانب کہا جاتا ہے کہ ہمارے  ساتھ  شامل ہوجاءو  ۔ جہاں پر انگریز  بھی بلوچ  کی نفسیات پر لکھتا ہے کہ اگر بلوچ کو عزت دو گے تو وہ تمہاری سنے گا انگریز تو ہماری نفسیات سمجھ گیا لیکن ہم خود نہیں سمجھے ۔ آج جو سینٹرل لیڈرز کے درمیان جو دوری ہے اس میں ایسی تحریروں کا بہت بڑا کردار ہے  ۔ 

واجہ حیربیار صاحب آپ کو اچھی طرح معلوم ہیں کہ جن کا ہم نے نام لیا ہیں وہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے سننے اور پڑھنے والے زیادہ ہیں لیکن انہوں نے کبھی اخلاقی جرت کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ احمر مستحکن کس بنیاد پر امریکہ میں پناہ لیے ہوءیے ہیں یا جنرل قادر حفیظ حسن آبادی کے بارے میں کیا کہتے ہیں ۔ ہمیں ان سے کوءی ذاتی غرض نہیں کہ یہ کون ہیں جب تک قومی مفادات کی خاطر کچھ نہ کچھ کریں۔  احمر اور حفیظ کا برملا طور پر یہ کہہ دینا کہ ان کو واجہ حیربیار کی مکمل حمایت حاصل ہے ہم امید کرتے ہیں کہ حمایت کے ساتھ ساتھ آپ ان کے لیے اخلاقی داءرے بھی قاءم کریں گے جو قوم کے مفاد میں بہتر نتاءج سامنے لاءے گے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ حضرات آءندہ کسی کو ذاتی تنقید کا نشانہ بنانے کی بجاءے کسی کی مجبوریوں کا مذاق اڑانے کی بجاءے اس کے عزت نفس کو پامال کرنے کی بجاءے قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنی دانشورانہ صلاحیتیں دشمن کے خلاف استعمال کریں گے۔ 
جیسے کہ ہم نے کہا کہ انقلابی اپنی ذات کے لیے نہیں بلکہ اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کرتا ہے جو اس کے ذات کے سامنے کوءی معنی نہیں رکھتا ،ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے یہاں خصوصاً افغان سوویت جنگ کے بعد مذہبی انتہا پسندی پاءی جاتی ہے عوام میں جس پر دشمن نے بہت زیادہ کام کیا ہے ۔ ہمارے جدوجہد چونکے نیشنلزم کی ہے مذہبی نہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں مذہب کا احترام کرنا چاہیے ،اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ دوست جو مذہب کو ڈاءریکٹ یا انڈاریکٹ مذاق کا نشانہ بناتے ہیں تو کچھ دوستوں کے مذہبی جذبات کو مجروح اور نارازگی پہنچانے کا سبب بنتے ہیں۔

((... غلط پروپیگنڈہ ...))

پروپیگنڈہ کی اہمیت سے انکار کرنا شاید بے وقوفی کیونکہ راءے عامہ کو متاثر کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ یہی ہے ۔ لیکن اگر سوچا جاءے کہ اگر میرے پروپیگنڈے سے دشمن کو فاءدہ ہو تو کیا اسے پروپیگنڈہ کا نام دیا جاسکتا ہے؟ ہمارے بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی بجاءے ان کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جیسے کہ کہا جاتا ہے اگر تم اپنی غلطیوں سے سیکھو گے نہیں تو انہیں دہراءو گے ۔ ایک مرتبہ کی غلطی دوسری مرتبہ بے وقوفی بن جاتی ہے اور جیسے کے عرض کیا گیا کہ پہلی غلطی آخری غلطی ہوتی ہے۔ اپنے غلط عمل پر نظر ثانی کرنے کا سوال تو ہمارے یہاں پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ ہم ابھی تک اپنی ذاتی انا کے خول سے نہیں نکل پاءے ہیں۔ 

واجہ حیربیار صاحب اب آپ خود فیصلہ کیجیے کہ ہمارے تمام دانشور، سیاسی کارکن یا لیڈر کس کیٹگری میں آتے ہیں ؟ آپ کی توجہ اس واقعہ کی جانب دلانا چاہوں گا کہ جب واحد قمبر کو اغوا کیا جاتا ہے ۔ تو ان کے اہل خانہ بشمول بانک کریمہ بلوچ اپنی کوءٹہ ، کراچی اور اسلام آباد میں کی گءی پریس کانفرنس جو کہ ریکارڈ پر موجود ہے میں یہ کہا گیا کہ واحد قمبرمعصوم ہیں اور وہ پکنک پر گءے تھے جہاں سے انہیں ریاستی اداروں نے اغوا کیا ۔ اس کا مقصد واجہ کی صحیح سلامت بازیابی تھا ۔لیکن دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ بی ایس او کے نوجوان اور دیگر آزادی پسند پارٹیوں کے کارکن پریس کلبوں کے سامنے نعرے لگاتے ہِیں کہ کمانڈر واحد قمبر قدم بڑھاءو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور ان کے ہاتھوں میں واحد قمبر کی تصویر نظر آتی ہے جس پر لکھا ہوتا ہے کہ کمانڈر واحد قمبر زندہ باد۔ اب ہم کیوں دشمن کا کام آسان کردیتے ہیں ،دشمن کو بتانے کی کیا ضرورت ہے کہ ہم اتنے منظم ہیں۔ ٹھیک اسی طرح سے میر عبدالنبی ، غفار لانگو ، حسن جانان کو بھی کمانڈر بنا دیا جاتا ہے جس سے دشمن کا کام آسان کردیا جاتا ہے۔ ایک ایسے ہی بلوچ فرزند کا قصہ بیان کرنا مناسب ہوگا کہ جب وہ رہا ہوا تو اس نے کہا کہ مجھے ریاستی اہلکاروں نے کہا کہ ہم تمہیں چھوڑ دے گے بس تم صرف اتنا بتاءو کہ تمہیں استاد کیوں کہا جاتا ہے؟

اغوا کے بعد جو احتجاج شروع ہوتا ہے وہ یا تو آپ کی مدد کرتا ہے یا آپ کے دشمن کی لیکن عموماً ہمارے یہاں دیکھا جاءے تو ہم دشمن کی مدد زیادہ کرتے ہیں ، انحصار کرتا ہے کہ آپ کو کیسے پیش کیا جاتا ہے ایک معصوم بلوچ کہ طور پر یا ایک کمانڈرکے طور پر۔ مسلح تنظیموں کی قابل تعریف بات یہی ہے کہ انہوں نے آج تک دشمن کا کام آسان نہیں کیا اسی لیے جب بالاچ مری کو شہید کیا گیا تو پوری دنیا بشمول آزادی پسند پارٹیاں اور قبضہ گیر ریاست یہ کہہ رہی تھی کہ بالاچ بی ایل اے کا سربراہ ہے لیکن بی ایل اے نے واضح کردیا کہ بالاچ بی ایل اے کا فقط ہمدرد تھاجو کہ ہماری نظر میں بہت ہی دور اندیش اور دانشورانہ اقدام تھا۔ 
ہم نہیں کہتے کہ اپنے انقلابیوں کو معصوم ثابت کرنے سے دشمن رحم کرے گا بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ دشمن کا کام آسان نہیں کیا جاءے ۔ 
عوام کو خوش فہمی میں مبتلا رکھنا کسی بھی تحریک کے لیے ہلاکت خیز ہے ،اسی لیے باتوں کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی بجاءے انہیں صحیح طریقے سے بیان کرنا چاہیے۔چند دنوں پہلے بی ایس او آزاد کی جانب سے اعلان کیا جاتا ہے کہ لندن میں اپنا سیکرٹریٹ قاءم کیا گیا ہے جو کہ عالمی سطح پر بلوچ مسءلے پر کام کرے گا۔ تو سوال یہ ہے کہ اتنے مہینوں سے بی ایس او کا سیکرٹریٹ خاموش کیوں ہے ؟ یا ابھی تک زیر تعمیر ہے؟اگر حقیقت میں وہ وجود رکھتی ہے تو اپنی کارکردگی دکھانے سے قاصر کیوں ہے؟
ایس ایم ایس کے ذریعے آج دشمن کے خفیہ ادارے فاءدہ اٹھا رہے ہیں اور ہم اپنی مخلصی اور نادانی کی وجہ سے آبیل مجھے مار کے مصادق دشمن کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ اسی لیے گذشتہ دنوں بی ایل اے کی جانب سے یہ بیان بھی سامنے آیا کہ بلوچ سرمچاروں کے ہمدرد فون پر احتیاط برتیں۔ جب تربت واقعہ پیش آیا تو ایس ایم ایس دھڑا دھڑ شروع ہوگءے کہ سرمچاروں کو ایف سی نے گھیرے میں لے لیا ہے اور دوبدو کی لڑاءی جاری ہے ، ایوب جان گچکی کے دو فرزند اور ان کے دو دوست شہید ہوجاتے ہیں۔ جب ان کے والد یہ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے معصوم تھے اور ایف سی کی کارواءی بالکل بے بنیاد تھی تو دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ انقلابی پارٹیاں بھی ایف سی کی مذمت کرتی ہیں لیکن ساتھ ایوب جان گچکی پر بھی برس پڑتے ہیں کہ آپ کہ بیٹھے سرمچار تھے آپ شہدا کا مذاق نہ اڑاءیں ۔
اب ہم عقل کے اندھے آخر یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اگر ہم انہیں سرمچار قرار دیتے ہیں تو پھر ایف سی کے حملے کو ہم بذات خود جواز فراہم کررہے ہیں۔ اور کیا ایک انقلابی کارکن یا لیڈر یا لکھاری ایک باپ سے زیادہ اس بات کا احساس رکھتا ہے ؟ ہم آخر کیوں نہیں سمجھتے کہ جب انسان مجبور ہوتا ہے تو مجبوری علامت ہے کہ ایک ہی راستہ ہے اور اس کے علاوہ کوءی راستہ نہیں بجاءے ہم مجبوریوں کو سمجھنے کے اپنی طفلانہ حرکتوں سے دشمن کے کام کو مزید آسان اور اپنے بلوچ خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔ اور جان بوجھ کر ان کے ایسے تصاویر سامنے لاءے جاتے ہیں جن سے انہیں سرمچار ثابت کرنے کی کوشش کی جاءے ۔  اور ان چیزوں پر بحث کرنے کی بجاءے تاکہ کوءی حل تلاش کیا جاسکے یا ایک لاءحہ عمل طے کیا جاسکے صرف یہ کہہ کر راہ فرار اختیار کی جاتی ہیں کہ ہم صحیح ہیں۔ 

کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم ابھی تک سنجیدہ نہیں ہیں دشمن جو ہماری تحریک کے ایندھن کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے اور ہم خوش ہے کہ ایندھن کے ختم ہونے سے تحریک کو ایندھن مل رہا ہے ۔ جیسے کہ واجہ آپ نے اپنے انٹرویومِیں خود بھی واضح کیا تھا کہ ایک ساتھی کا نقصان بہت بڑا نقصان ہوتا ہے جسے پر کرنا تقریباً مشکل یا ناممکن بھی ہوتا ہے تو کیوں نہ ہم بقول عبد النبی بنگلزءی کہ اپنے انقلابی دوستوں کی ہر ممکن حفاظت کریں اور دشمن کے کام کو مشکل کرنے کی آخری حد تک کوشش کریں ۔ مانتے ہیں کہ مارنا اور مرنا تحریکوں کا حصہ ہے لیکن ہمارے انقلابیوں کی اولین کوشش نواب خیر بخش مری کی طرح یہی ہونی چاہیے کہ اس دن کے لیے جینا چاہتا ہوں جب بلوچ اپنی منزل یعنی اپنی آزادی پالیں ۔

((... خود سری/ وت سری ...))

ایک نہایت خوفناک راستہ جو آج کل دیکھنے میں آرہا ہے وہ خود سری ہے کا ہے ،جہاں شخصیت پرستی نظریے پر حاوی پڑھ جاءے تو انقلابی دوست اتنے آگے نکل جاتے ہیں اندھی تقلید میں کہ وہ تنظیم کاری کے اصول اور ڈسپلن سے انحراف کرنے لگتے ہیں ۔ کچھ عمل ایسے ہوتے ہیں جو انفرادی طور پر نہیں کیے جاسکتے جن کے لیے تنظیم کاری اور ڈسپلن کی بے انتہا ضرورت ہوتی ہے اسی لیے لینن کی تحریروں میں زیادہ تر یہ جملہ پڑھنے کو ملتا ہے آءو تنظیمی کام کریں۔
جس حد تک پروپیگنڈے کی استطاعت ہو اس حد تک جانا بہت لازمی ہوجاتا ہے لیکن جس کام کو تقاضوں کے تحت نہ کیا جاءےتو وہ سر پر ہتھوڑا بن کر پڑتا ہے ۔ اسی خود سری کا شکار کچھ یا زیادہ تر بلوچ سیاسی کارکن یا لیڈر ہیں جنہوں نے آپ کو عالمی سطح پر اپنے تنظیموں کے اتحاد کے پلیٹ فارم کی جانب سے نماءندہ کہا اور آپ نے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ، اس کا مقصد آپ کے اور دیگر لیڈروں کے درمیان پھوٹ ڈالنا تھا اور ایک دوسرے سے دور کرنے کی ایک کوشش تھی۔ جس کے بعد ردعمل میں ہم نے ناراضگی کا ایک فضا بنتے ہوءے دیکھا لیکن ہمیں اس بات کو بھی سمجھنا چاہیے کہ یہ ایک تنظیمی مشترکہ فیصلہ نہیں تھا کہ جو سوچ سمجھ کر کیا گیا ہو بلکہ تین لوگوں کا ہاتھ اس فیصلے کے پیچھے تھا۔ اگر غور کیا جاءے تو ایسے موڑ پر ان افراد کا یہ عمل مزید انتشار کا سبب نہ بنتا کیا؟
بلوچ سرمچاروں کی قابل تعریف بات یہ ہے کہ انہوں نے جدوجہد میں غداروں کو کسی بلا تعصب کے نشانہ بنایا ہے وہی پر ہم دیکھتے ہیں کہ سیاسی دوستوں کی جانب سے طفلانہ اقدام کیا جاتا ہے پمفلٹ شاءع کیے جاتے ہیں جن میں پنجابیوں کو بلوچستان چھوڑنے کا الٹ میٹم اور سخت دھمکی امیز لہجہ استعمال کیا جاتا ہے، اس سے دشمن کو یہ فاءدہ ہوا کہ اگر بلوچ سرمچار دس مخبروں یا بلوچ قومی تحریک کو نقصان دینے والے آبادکاروں کو نشانہ بناتی ہے تو بیس عام آبادکاروں کو ریاست نشانہ بناتی ہے اور بعد میں جتنی بھی تردید کی جاتی ہے تو کوءی فاءدہ نہیں ہوتا۔ 
اس کا دوسرا فاءدہ لینڈ مافیہ یا پشتون لینڈ مافیہ نے اٹھایا جو زبردستی جاءیدادوں کو کوڑیوں کے دام خریدنے کے لیے بلوچ تحریک کا نام استعمال کرتے ہیں جس سے غلط فہمیاں اور نفرتیں جنم لے رہی ہیں ۔ دستی بموں سے گھروں پرحملے کرکے انہیں خوفزدہ کرنا بی ایل اے کا نام استعمال کرکے گھر خالی کروانے کی دھمکیاں ۔اور بروقت تردید نہ کرنے کی وجہ سے بھی نقصان ہوا ہے ، اور ہماری تحریک انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے ہے جو کہ ہر طرح کی نسل پرستی سے پاک  ہے ہم غاصب کے خلاف لڑ رہے ہیں نہ کہ غاصب بننے کے لیے ، ہمیں نسلی عصبیت کا شکار نہیں ہونا چاہیے جیسا کہ نظر آتا ہے کہ ہم ہر پنجابی کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں ۔  اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اگر ایک بلوچ کی شہادت پر پاکستان سے جواب مانگتا ہے تو آبادکاروں کو بلا ثبوت کے قتل کرنے پر بلوچ سے بھی جواب مانگتا ہے ۔ 
مانا کہ دشمن کے پاس ادارے اور ذراءع موجود ہیں وہ بلوچ کو ہر طرح سے بدنام کرنے کی کوشش کرے گالیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بہت سے چیزوں میں ہم دشمن کو جواز فراہم کرتے ہیں جن کو بنیاد بنا کر وہ تحریک کے خلاف پروپیگنڈہ کرتا ہے۔ ہمارے یہاں یہ سیاسی تربیت دی جاتی ہے کہ پنجابی ہمارا دشمن ہے لیکن وضاحت نہیں کی گءی کہ کونسا پنجابی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بااثر پنجابی جو ہمیں غلام رکھنے میں ایک کردار ادا کرتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے اور وہ بلوچ بھی ہمارا دشمن ہے جو ہماری غلامی کو دوام دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ کیونکہ غاصب کوءی قوم نہیں بلکہ ایک طبقہ ہوتا ہے۔
اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ یونیورسٹی آف بلوچستان کے پروفیسر ناظمہ طالب کو قتل کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ سریاب میں بلوچ خاتون کو شہید کیے جانے کا ردعمل ہے ، اب ایک ناظمہ طالب کو قتل کرنے سے ریاست کو کیا نقصان پہنچا؟ روایات اپنی جگہ ہم روایات کو بیچھ میں نہیں لانا چاہتے لیکن ناظمہ طالب کا کیا قصور تھا ؟ اب اگر بغیر قصور کے کسی کو نشانہ بنایا جاءے ردعمل کے طور پر تو ہماری ناقص راءے میں ظالم اور مظلوم کا فرق ہی مٹ جاتا ہے ۔ ہمارا مقصد جیسے پہلے کہا گیا کہ غلطیوں کی نشاندہی ہے اور ایلن وڈز کے بقول وہی آپ کا دوست ہے جو آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہے کہ آپ یہاں غلط ہو ۔
یہ وہ چیزیں ہیں ہماری نظر میں جن کو ریاست عالمی دنیا کے سامنے رکھتے ہوءے بلوچ تحریک کے خلاف زہریلا پروپیگنڈہ کرتی ہے ۔

((... وسیع پیمانے پر نءی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے ...))

واجہ حیربیار صاحب ہم امید کرتے ہیں کہ آپ ہماری جانب ضرور متوجہ ہونگے اور ہم امید کرتے ہیں کہ آپ قومی مفاد کو عزیز رکھتے ہوءے جیسا کہ آپ ہمیشہ رکھتے آءے ہیں اس بارے میں اقدامات کریں گے جو کہ تقاضوں سے ہم آہنگ ہونگے ۔ 
ہمارے قلم اٹھانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ قومی تحریک جن کمزوریوں کا شکار ہیں ان کمزوریوں کا خاتمہ کرتے ہوءے جدوجہد کو موثر بنایا جاءے اور منزل مقصود کے حصول کے لیے قومی اتحاد کی جانب ایک قدم بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سینٹرل لیڈر شپ یعنی واجہ حیربیار مری ، ڈاکٹر اللہ نذر ، اختر مینگل ، براہمدغ بگٹی کو ایک جگہ بیٹھنا ہوگا اور ایک مشترکہ لاءحہ عمل طے کرنا ہوگا اور ہم امید کرتے ہے کہ آپ اس بارے میں ضرور پہل کریں گے ۔  اگر کوءی اختلاف ہے تو انہیں بیٹھ کر ختم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ایسے نقاط زیادہ ہے جن پر متحد ہوا جاسکے ان نقاط کے برعکس جو نفرتوں میں اضافہ کرتی ہیں۔ ذاتی یا پھر گروہی نفرت کی سیاست کو جو تحریک کے لیے نقصان دہ ہے کو ایک طرف رکھتے ہوءے قومی اتحاد کو یقینی بنایا جاءے ۔  
تحریک کے نام پر غلط پروپیگنڈہ کرکے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی بجاءے ہمیں نظریہ ، سچاءی عقل و فکر کی بنیاد پر صحیح اور غلط کی تمیز کرنا سیکھنا ہوگا ۔ ہمیں سیکھنے اور سکھانے کے دروازے بند نہیں کرنے چاہیے کیونکہ سیکھنے اور سکھانے سے ہی تو تحریک پروان چڑھتی ہے ۔ ہمیں ایک دوسرے پر کیچھڑ پھینکنے کی بجاءے محتاط ہوکر یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم اپنے قوم کے لیے کیا کرسکتے ہیں ۔ ہمیں غلطیوں سے سیکھنا ہوگا غلطیاں تو ہوتی ہیں، ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہمارے عمل سے ہمیں فاءدہ پہنچ رہا ہے یا ہم اپنی غلطیوں سے دشمن کا کام تو آسان نہیں کررہے ۔  ہماری ذمہ داری ہے کہ چیزوں کو صحیح عوام کے سامنے رکھیں خاص کر انقلابی نوجوانوں کے سامنے پھر وہ بہتر انداز میں یہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں۔ 
ایک ناقص راءے یا پھر ایک مشورہ کہ آج دشمن نے بربریت کی تمام سرحدوں کو پار کیا ہوا ہے ایسے میں عالمی دنیا بھی کوءی مطمءن کن اقدام نہیں اٹھا رہی ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ جہد کار اور سیاسی کارکنان اپنی حفاظت کے لیے خود اقدامات اور تدابیر اختیار کریں۔ سرعام سرگرمیاں بالکل ترک کرنی ہوگی اور زیر زمین کام کرنا ہوگا جو زیادہ بہتر ہے ، بہت زیادہ ملنا جلنا ختم کرنا ہوگا اور احتیاط سے کام لیا جاءے خصوصاً موباءل کے استعمال پر احتیاط برتی جاءے کیونکہ بہت سے دوست موباءل پر بے احتیاطی کی بدولت دشمن کا نشانہ بنے ۔ آج  پریشانی کا سبب یہ بات نہیں کہ جو دشمن کے چنگل میں ہیں جو فرزند دشمن نے دزگیر کیے ہوءے ہیں انہیں شہید کردے گا بلکہ اہم مسءلہ یہ ہے کہ باقی جو گراءونڈ میں موجود ہے وہ ان کے پیچھے پڑا ہوا ہے اب حفاظتی اقدامات نا گزیر ہے اور اس کے لیے سینٹرل لیڈر شپ کے اتحاد کی بے انتہا ضرورت ہے کہ وہ متحد ہوکر اس بارے میں لاءحہ عمل طے کریں ۔ مسلح سطح پر بھی کچھ ایسی کارواءیاں کرنی ہوگی جو ریاست کو یہ سوچنے پر مجبور کردے کہ اگر وہ آءندہ کوءی ایسا قدم اٹھاءے گا تو اس کا رد عمل اتنا بھیانک ہوگا اور وہ دس مرتبہ ضرور سوچے گا کسی بلوچ پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے۔ سیاسی محاذ کو اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ان کی پالیسیاں فرسودہ ہوچکی ہیں لینن کے الفاظ میں ایک حالات میں جو طریقہ کار موثر ہوتا ہے تو دوسرے حالات میں وہ بے حد بیکار ہوتا ہے یعنی ہرقلیطس کے بقول ہر شے کو دوام ہے۔ سیاسی محاذ کو شہیدوں اور اغوا ہونے والے فرزندوں کے گھروں کا خیال رکھنا بھی فرض بنتا ہے ان کے گھر والوں کو یہ احساس دلانا لازمی ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں آپ کی قوم آپ کے ساتھ ہے اور ہوسکے تو ان کے والدین کے وڈیو پیغامات انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی جانی چاہیے ۔ 
کہا جاتا ہے کہ شہادتوں سے تحریک کو ایندھن مل رہی ہے لیکن ہماری نظر میں یہ بات مبالغہ آمیز ہے بلکہ شہادتوں کے ذریعے دشمن تحریک کی ایندھن کو ختم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دشمن کی کوشش یہی ہے کہ تحریک میں ایک جنریشن گیپ پیدا کی جاءے ،ہمیں بہت سوچ سمجھ کر دشمن کو جواب دینا ہوگااور اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ کہی دیر نہ ہو جاءے۔ اگر یہی سلسلہ رہا تو شاید سانس لینے کا موقع ملے لیکن جب وہ دوست جو وقت کے تقاضوں کو پورا کررہے ہیں وہ نہیں رہے گے۔ سیاسی دوستوں سے عرض ہے کہ وہ اس بارے میں کچھ وقت نکال کر سوچیں کہ اس بارے میں کیا کرنا ہے سیاسی اختلافات اپنی جگہ۔ 
آخر میں بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے جاری کردہ ویڈیو پیغام پر بھی بحث لازمی ہے جس میں سب سے زیادہ زور اتحاد پر دیا گیا تھا ، حالانکہ یہ بات بھی واضح ہو کہ ہمیشہ سیاسی دوست کہتے ہیں کہ ہم متحد ہے تو پھر اس کے باوجود سرمچار بار بار اتحاد پر زور دیتے ہیں ،حالانکہ قوم کو متحد کرنا تو سیاسی محاذ کا کام ہے لیکن مقام افسوس ہے کہ قوم کو متحد کرنے کی بجاءے چھوٹی چھوٹی باتوں کو بنیاد بنا کر مزید ڈیڈھ انچ کی مسجدیں تعمیر کی گءیں جنہیں اب ختم کرنے کا وقت ہے ، اب بلوچ سینٹرل لیڈر شپ یعنی واجہ حیربیار مری ، اختر مینگل ، ڈاکٹر اللہ نذر ، براہمداغ بگٹی کو ایک ساتھ بیٹھ کو قوم کو ایک لاءحہ عمل دینا چاہیے ۔  بلوچ شہدا کی یاد میں ایک دن بھی مختص کیا جانا چاہیے اور اس روز ایک زبردست طاقت کا مظاہرہ کیا جانا چاہیے اور بلوچ سینٹرل لیڈر شپ کو بھی اس بلوچی مچھی میں خطاب کرنا چاہیے جو کہ قومی اتحاد کی جانب ایک  اہم پیش رفت ثابت ہوگی ۔ 

آخر میں حیربیار صاحب ایک چیز جو زیادہ تر زیر بحث ہے جس کا ہم نے تذکرہ بھی ہم نے زیادہ کیا کہ بلوچ سینٹرل لیڈر شپ متحد ہو اور قوم کو لاءحہ عمل دے اور ہم امید کرتے ہیں کہ واجہ حیربیار مری وہ پہلے لیڈر ہوگے جو اس بارے میں پیش رفت کریں گے ۔ آپ کا بیان بھی اس بابت سامنے آیا کہ طریقہ کار میں بہتری کی ضرورت ہے ہم آپ کے اس بات کی قدر کرتے ہیں، طریقہ کار کے بارے میں ہم سرعام بحث نہیں کرسکتے اس لیے اتنا کہنا چاہے گے کہ بہترین طریقہ کار کے لیے آپ کو عملی اقدام اٹھانا ہوگا۔ آپ تمام سٹیک ہولڈرز کو اکھٹا ہونا پڑیگا اور سب کی مشاورت کے بعد ایک قومی لاءحہ عمل طے کرنا پڑے گا جو قومی آزادی کے حصول میں مددگار ثابت ہوگا ۔ اس امید کے ساتھ اجازت کہ آپ اپنا اہم کردار ادا کرتے ہوءے قوم کے وسیع تر عظیم ترمفادات کی خاطر قومی اتحاد کو عملی جامعہ پہنا کر قوم کو ایک عظیم خوشی دے گے۔

منت وار

UNITE WE STAND; DIVIDE WE FALL;
LONG LIVE FREE AND UNITED BALOCHISTAN;